Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 18

منزل عشق قسط 18
"اب آگے کیا کرنا ہے انس؟"
ہانیہ اور انس اس وقت ناشتہ کرنے کے لیے ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے لیکن ہانیہ کو بس وانیا کو ڈھونڈنے کی پڑی تھی۔
"میں سوچ رہا تھا کہ راگا تک زرخان یہ خبر پہنچا چکا ہوگا کہ ایک پولیس والا اسے ڈھونڈ رہا اور راگا کسی بھی حال میں مجھے ضرور ڈھونڈے گا اگر ایک دفعہ بس ہمیں اس کے ٹھکانے کا پتہ لگ جائے۔۔۔"
"انس آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟اس سے تو آپ کی جان کو بہت بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔"
 ہانیہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
"لیکن ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے ہانیہ۔۔۔"
اس سے پہلے کہ ہانیہ انس کو کوئی جواب دیتی اس کی نظر سامنے موجود ہے شخص پر پڑی جو بہت عجیب نگاہوں سے اسے گھور رہا تھا۔پہلے تو ہانیہ نے ہاتھ سے کوئی لوفر سمجھ کر نظر انداز کرنے کا سوچا لیکن اس کے دیکھنے کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہانیہ کو جانتا ہو۔
"انس۔۔۔۔"
ہانیہ نے تیز ہوتی سانسوں کے ساتھ انس کو پکارا۔
"وہاں سامنے ایک لڑکا مجھے گھور رہا ہے۔۔۔"
انس نے ہانیہ کی بات پر مڑنا چاہا تو ہانیہ نے فوراً اسکا ہاتھ تھام کر اسے پلٹنے سے منع کیا۔
"تو اس میں کیا عجیب بات ہے ایسی جگہ پر جینز جیکٹ پہنو گی تو یہی ہوں گا ناں۔"
انس نے شرارت سے کہا لیکن وانیا کے چہرے پر اضطراب دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔
"کیا ہوا ہے ہانیہ۔۔۔؟"
"انس وہ مجھے ایسے دیکھ رہا ہے جیسے مجھے جانتا ہو اور یہاں جہاں مجھے کوئی نہیں جانتے اس کے ایسے دیکھنے کا مطلب ہے کہ۔۔۔۔"
"کہ وہ وانیا کو جانتا ہے۔۔۔"
انس نے اس کی بات ختم کی تو ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔تبھی وہ آدمی اپنے گرد چادر لپیٹتا وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں سے جانے لگا۔انس اور ہانیہ بھی اٹھ کر اس کے پیچھے گئے تھے۔
پہلے تو وہ دونوں چپکے چپکے اس کے پیچھے چلتے رہے تھے پھر اچانک انس نے ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے مزید آگے جانے سے روکا۔
"رکو ہانیہ یہ ایک ٹریپ ہے وہ ہمیں وہاں لے کر جا رہا ہے جہاں وہ چاہتا ہے اسکا مطلب وہ ہمیں پھسانا چاہتا ہے ۔۔۔"
انس نے ہانیہ کو سمجھانا چاہا لیکن ہانیہ مسلسل اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے کھینچتے ہوئے خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔
"مجھے فرق نہیں پڑتا وانیا کو ڈھونڈنے کا یہ موقع میں ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی۔۔۔"
ہانیہ نے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا اب وہ آدمی ایک گلی میں غائب ہوچکا تھا۔
"ہانیہ نہیں۔۔۔"
انس نے کہنا چاہا لیکن تبھی ہانیہ تیزی سے پلٹی اور اپنا گھٹنا انس کی ناف پر پوری طاقت سے مارا۔انس تکلیف کے باعث ہلکا سا جھکا لیکن اس نے ہانیہ کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔
ہانیہ نے ہاتھ کا مکا بنا کر انس کے منہ کی جانب لایا جسے انس نے ہوا میں ہی تھام لیا لیکن اسی وقت ہانیہ پوری طاقت سے اپنا پاؤں انس کے گھٹنے پر مار چکی تھی جسکی وجہ سے انس کراہ کر زمین پر گرا اور موقع دیکھ کر ہانیہ اس شخص کے پیچھے بھاگ گئی۔
انس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس سے اٹھا نہیں جا رہا تھا۔اسی کی سیکھائی ٹرک آج ہانیہ اسی کے خلاف استعمال کر چکی تھی۔
ہانیہ جلدی سے بھاگ کر اس گلی میں آئی لیکن وہاں اب کوئی بھی نہیں تھا بے چینی سے یہاں وہاں اس شخص کو تلاش کرتے ہانیہ نے آگے بڑھنا چاہا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی ہے لیکن اس سے پہلے کہ وہ پلٹتی کوئی اسکے منہ پر ایک رومال رکھ چکا تھا۔
"واہ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ایک جیسی دو ہیں۔۔۔۔وہ راگا کی ہو گئی تو کیا ہوا تو کال کی ہو جائے گی۔۔۔"
اس شخص نے خباثت سے کہا تو وانیہ نے اس سے لڑنا چاہا لیکن رومال پر لگی دوائی اسکی طاقت ختم کر چکی تھی کچھ ہی پل میں وہ ہوش کی دنیا سے بے خبر ہو گئی تھی۔
                     ❤️❤️❤️❤️
صبح وانیہ اٹھی تو وہ کمرے میں اکیلی تھی لیکن راگا کے پاس ہونے کا احساس اور اسکی خوشبو ابھی تک وہیں موجود تھی۔
وانیا نے اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا اور کپڑے بدلے تو مرجان اس کے لیے کھانا لے کر کمرے میں آئی۔
"کیسا ہے پیاری لڑکی؟"
مرجان نے محبت سے پوچھا تو وانیا نے منہ بنا کر گہرا سانس لیا۔
"دم گھٹنے لگا ہے اپنی اس قید سے۔۔۔"
"ارے اس میں کونسا بڑی بات ہے چلو آج میں تم کو یہاں سے باہر لے کے جاتا ہے زرا تم کو یہ دیکھا دے گا کہ ہمارا گاؤں کتنا پیارا ہے اور ہم جھیل سے انکے کپڑے بھی دھو لے گا۔۔۔"
پہلے تو وانیا نے اسے انکار کرنا چاہا وہ کہیں بھی نہیں جانا چاہتی تھی نہ ہی اس جگہ سے ہلکا سا بھی دل لگانا چاہتی تھی لیکن مرجان کی خوشی کو دیکھتے ہوئے منع نہیں کر پائی۔
پھر کچھ سوچ کر ناشتہ کرنے کے بعد ایک کونے سے اس نے راگا کے کپڑے پکڑے اور مرجان کے ساتھ چل دی۔
وہ جگہ واقعی میں بہت زیادہ خوبصورت تھی۔سر سبز پہاڑ جن کی چوٹیوں پر ابھی بھی برف جمی تھی اور ان پہاڑوں کے دامن سے نکلتی ایک جھیل جو آبشار کے پانی کی طرح گرتی تھی۔جھیل سے کچھ فاصلے پر ہی انکا گاؤں آباد تھا جن میں سے کچھ گھر تو پہاڑ کے دامن میں تھے اور کچھ پہاڑوں پر پھیلے ہوئے تھے۔
آج تو سورج بھی بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے میں مصروف تھا اور بہت سے بادل پہاڑوں سے ٹکرا کر گزر رہے تھے۔
وانیا کو لگا کہ وہ گھنٹوں اس دلفریب منظر میں کھو سکتی ہے۔
"چلو وانی اب تم بھی لالا کے کپڑے دھو لو ماڑا یا بس نظارے دیکھنے آئی ہو ساتھ۔۔۔"
مرجان نے شرارت سے کہا تو وانیا نے اسکی کی نقل کرتے ہوئے قمیض اٹھا کر پانی میں رکھی لیکن انتہائی زیادہ ٹھنڈے پانی میں ہاتھ پڑتے ہی فوراً اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے۔
"اففف اتنا ٹھنڈا پانی۔۔۔مم۔۔۔میں نہیں کر رہی یہ گندے کپڑے پہنیں میری بلا سے۔۔۔"
وانیا کی بات پر مرجان قہقہ لگا کر ہنس دی اور راگا کے کپڑے بھی خود ہی پکڑ لیے۔
"تم بس نظارے دیکھو۔۔۔"
مرجان نے شرارت سے کہا۔تبھی ہوا کا ایک جھونکا آیا تو مرجان کا دوپٹہ سر سے اتر گیا۔وانیا کی نظر اسکی گردن پر موجود لال نشان پر پڑی۔
"یہ تمہاری گردن پر کیا ہوا مرجان۔۔۔۔؟"
وانیا کے سوال پر مرجان ایک دم گھبرائی اور اپنی گردن پر ہاتھ رکھ لیا۔
"کک ۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔"
"تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو کسی چیز نے کاٹا ہے کیا؟"
وانیا نے آہستہ سے پوچھا تو اسکے سوال پر مرجان لال ٹماٹر ہو گئی اور اپنا چہرہ فوراً ہاتھوں میں چھپا لیا۔
"ارے مرجان ہوا کیا ہے؟"
وانیا حیرت سے پوچھ رہی تھی۔
"کک۔۔۔۔کچھ نہیں ہوا ماڑا یہ تو بس۔۔۔۔تمہیں پتہ ہے وانی میں اتنا خوش کیوں ہے کیونکہ جب کل رات وہ واپس آئے تو انہوں نے۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ میرے بغیر شہر انہیں کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا اور انہوں نے مجھے زما مینہ کہا۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر مرجان سرخ چہرے کے ساتھ پھر سے کپڑے دھونے لگی لیکن وانیا بہت الجھ چکی تھی۔
" ویسے اس سب کا تمہاری چوٹ سے کیا تعلق ہے؟"
مرجان کا دل کیا کہ اپنا ماتھا پیٹ لے۔
"یہ چوٹ نہیں ہے ماڑا۔۔۔۔۔یہ تو بس وہ۔۔۔۔انہوں نے"
مرجان مزید شرما گئی جبکہ اسکی بات کا مطلب سمجھ کر پہلے وانیا کی آنکھیں پھیل گئیں پھر اسکا چہرہ بھی مرجان کی طرح ہی سرخی چھلکانے لگا۔
"مم۔۔۔۔میں گھر جا رہی ہوں۔۔۔"
وانیا نے جلدی سے اٹھتے ہوئے کہا ابھی وانیا نے ایک قدم ہی بڑھایا تھا جب اچانک اسکا پاؤں بری طرح سے پھسلا اور وہ اپنا توازن قائم نہ رکھتی ہوئی ایک چیخ کے ساتھ وہ سیدھا جھیل میں گر گئی۔
"وانیا۔۔۔۔"
مرجان ایک چیخ کے ساتھ کھڑی ہوئی اور وانیا کو دیکھنے لگی جو پانی میں ڈوبنے سے خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پیر چلا رہی تھی لیکن سب بے سود ہی ثابت ہوا۔
"بچاؤ کوئی بچاؤ ۔۔۔۔۔مرسته"
مرجان کے چلانے پر راگا اور ویرہ جو اپنی مخصوص جگہ پر موجود کام کی باتیں کر رہے تھے سیدھا اس آواز کی جانب بھاگے۔
"کیا ہوا ؟"
ویرہ نے مرجان کے پاس جاتے ہوئے گھبرا کر پوچھا۔
"وہ وانیا۔۔۔۔وہ پانی میں گر گیا۔۔۔"
مرجان نے زاروقطار روتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات سن کر راگا نے بغیر کچھ سوچے سمجھے اپنی جیکٹ اتاری اور پانی میں چھلانگ لگا دی۔
"راگا۔۔۔۔"
پانی میں ڈبکی لگانے کے دو منٹ بعد ہی راگا کو اسکا وجود گہرائیوں میں جاتا نظر آیا تو جتنی جلدی ہو سکا وہ آگے بڑھا اور اسے پکڑ میں لے کر باہر نکال لایا۔
"وانیا۔۔۔۔"
راگا نے اسکا گال تھپتھپایا لیکن اسے سانس بلکل بھی نہیں آ رہا تھا۔راگا نے اپنے ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر اسکے سینے پر دباؤ ڈالا پھر کسی کی بھی پروا کیے بغیر اسکے ہونٹوں پر جھکا اور اسکو اپنی سانسیں دینے لگا۔
تین چار بار یہ عمل دہرانے پر وانیا کھانسنے لگی تو راگا کی سانس میں سانس آئی۔اس نے فوراً اسکا نازک وجود اپنی پناہوں میں لے کر خود میں بھینچ لیا۔
"جان نکال دیا تم نے میرا ماڑا۔۔۔"
راگا نے بہت بے چینی سے اسکے کان میں کہا اور پھر اسکے ٹھنڈے پڑتے وجود کو اٹھا کر اپنے گھر کی جانب چل دیا۔
مرجان اور ویرہ بھی انکے پیچھے آئے تھے۔مرجان نے گھر جا کر وانیا کے گیلے کپڑے تبدیل کروائے جبکہ راگا باہر بے چینی سے کھڑا تھا۔
"راگا اس لڑکی کے لیے تیری اتنی بے چینی اچھی نہیں۔۔۔۔"
ویرہ نے راگا کی بے چینی دیکھ کر کہا۔
"ابھی نہیں ویرہ۔۔۔ابھی نہیں۔۔۔"
راگا کا لہجہ بہت حکمیہ تھا۔مرجان باہر آئی تو راگا بے چینی سے گھر کے اندر چلا گیا۔
وانیا بیڈ پر لیٹی کانپ رہی تھی۔مرجان نے اسے دو کمبل اوڑھا دیے تھے لیکن پھر بھی سردی کی شدت سے وہ کپکپاتی جا رہی تھی۔
راگا نے اپنے گیلے کپڑے تبدیل کیے اور خود بھی کمبل میں گھس کر اسے اپنی باہوں میں بھینچ لیا۔کچھ دیر تک تو وانیہ کپکپاتی رہی پھر ایک معصوم سی بلی کی مانند اسکی گرم آغوش میں سمٹتی ہوئی چھپ سی گئی۔
"میرا معصوم سا بچہ۔۔۔"
راگا نے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے اور اسکو خود میں بھینچتے ہوئے سکون سے آنکھیں موند گیا۔
                   ❤️❤️❤️❤️
رات ہوتے ہی وانیہ کو بہت زیادہ بخار ہو چکا تھا۔انہوں نے اپنے ساتھی ڈاکٹر کو بلایا جو ابھی اسے دوائی دے کر گیا تھا۔
اس نے راگا کو بتایا تھا کہ جو دوائی اس نے وانیہ کو دی ہے اس سے وانیا پر نشا طاری ہو گا لیکن بخار بھی جلد ہی اتر جائے گا۔
راگا نے پریشانی سے وانیا کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھا جو بھٹی کی مانند دہک رہا تھا۔
"مما۔۔۔۔"
وانیا نے راگا کا ہاتھ تھام کر معصومیت سے کہا تو راگا نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا۔
"مما تو نہیں شوہر موجود ہے یہاں تمہارا ۔۔۔"
راگا نے اسکا ہاتھ نرمی سے سہلاتے ہوئے کہا۔
"مم۔۔۔۔مجھے سردی لگ رہی ہے بہت سردی۔۔۔۔"
وانیا نے کپکپا کر کہا تو راگا نے کمبل ہٹایا اور خود اسکے ساتھ لیٹ کر اسکا تپتا وجود اپنی آغوش میں بھر لیا۔
"ہاہاہا۔۔۔۔اف ہانی تم کتنی موٹی ہو گئی ہو کم کھانا کھایا کرو نا موٹی۔۔۔۔"
وانیا نے اب کامیابی سے راگا کو اپنی ماں کے بعد بہن سمجھ لیا تھا اور یہ سب راگا کو کہاں گوارا تھا اسی لیے بالوں سے تھام کر اسکا چہرہ اوپر کیا۔
"افغان جلیبی یہ تمہارا شوہر ہے اور بہتر یہی ہے کہ تم مجھے کوئی اور سمجھ کر میرا امتحان لینا بند کر دو ورنہ وہ سب کر گزروں گا جسکا حق صرف تمہارے شوہر کا ہے۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر راگا نے اسکی گردن پر پھونک ماری تو وانیہ کھلکھلا دی۔
"آپ۔۔۔۔آپ تو ہانی نہیں آپ وہ برے والے جن ہیں جنہوں نے اس پری کو قراقرم کے پہاڑوں میں قید کر لیا۔۔۔"
وانیا نے راگا کو دیکھتے ہوئے اپنی جانب اشارہ کیا تو راگا نے مسکرا کر اسکی آنکھوں میں موجود خمار کو دیکھا۔
"اور اب یہ پری ہمیشہ ہی اس جن کی قید میں رہی گی جاناں اپنی آخری سانس تک۔۔۔۔"
راگا نے اسے خود سے لپٹاتے ہوئے کہا۔کچھ دیر وانیا خاموش رہی تو راگا کو لگا کہ وہ سو گئی لیکن پھر وہ ہاتھ پیر چلانے لگی اور اپنے اوپر سے کمبل ہٹا دیا۔
"اففف بہت گرمی ہے۔۔۔۔۔ہٹائیں اسے میرے اوپر سے۔۔۔۔"
وانیا نے کمبل کو اتارا اور راگا پر آ کر لیٹ گئی۔
"میں بابا کی جان ہوں ہانی تم نہیں بابا سب سے زیادہ مجھے پیار کرتے ہیں۔۔۔کرتے ہیں نا؟"
وانیا نے نگاہیں اٹھا کر راگا سے پوچھا۔
"لڑکی آج تو تم مجھے اپنی ماں،بہن اور نا جانے کیا کیا بنا کر ہمارا نکاح ہی خطرے میں ڈال دے گا۔۔۔اب خاموش ہو جاؤ ورنہ تمہیں خاموش کروا دوں گا"
راگا نے اسکے ہونٹوں کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے کہا۔
"ارے آپ تو میرے بابا نہیں آپ تو جن ہیں۔۔۔۔وہ برے والے جن۔۔۔۔"
وانیا نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
"لیکن آپ کتنے پیارے جن ہیں نا بس یہ مونچھیں اچھی نہیں میرے ہونٹوں پر سوئی کی طرح چبھتی ہیں۔۔۔"
وانیا نے اسکی مونچھوں کو چھو کر کہا اور پھر آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ بہت نرمی سے راگا کی آنکھوں پر رکھے۔
"یہ کیا کر رہی ہو وانیا۔۔۔؟"
راگا نے اس کی کمر کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے سختی سے پوچھا۔
"پیار کر رہی ہوں اپنے پیارے سے جن کو۔۔۔۔"
وانیا نے ہنستے ہوئے کہا اور اپنے ہونٹ اسکے دونوں گالوں پر رکھے اور تبھی راگا کی بس ہوئی تھی اسی لیے اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر اسکے ہونٹوں کو اپنی شدت بھری گرفت میں لے لیا۔
وانیا اسکی شدت محسوس کرتے سٹپٹائی لیکن اب اسکی گرفت سے آزادی ناممکن تھی جب راگا کو لگا کہ وہ سانس بھی نہیں لے پا رہی تو اس سے دور ہوا اور اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔
"میری بس ہو رہی ہے وانیا اب خود کو روکنا ناممکن ہو چکا ہے میری افغان جلیبی۔۔۔۔سو جاؤ ورنہ جو ہو گا سہہ نہیں پاؤ گی"
راگا نے اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھے تو وانیا ہنستے ہوئے اس سے دور ہوئی۔
"دور رہو جن۔۔۔۔مت کھاؤ مجھے۔۔۔۔"
وانیا نے اسے دور ہونے کا کہا لیکن اس پر اپنی پکڑ مظبوط کی راگا بھی اسکی کمر پر اپنی گرفت سخت کر چکا تھا۔
"نہیں جانے جہان آج تو  تمہارا یہ جن اپنی افغان جلیبی کو کھا ہی جائے گا۔"
راگا پلٹ کر اس پر حاوی ہوا اور پھر سے اسکے ہونٹوں پر اپنی گرفت مظبوط کر لی۔وانیا اسکی گرفت میں مچل رہی تھی لیکن اب راگا کو ہوش ہی کہاں تھا۔وہ تو اپنی معصوم حرکتوں سے اسکا سارا ہوش ختم کر چکی تھی۔
"سسسس۔۔۔۔"
وانیہ نے اپنی گردن پر راگا کے دانت گڑھتے محسوس کیے تو سسک اٹھی۔پھر اپنے کندھے سے شرٹ بھی سرکتی محسوس کر وہ کپکپا کر رہ گئی۔
"عماد۔۔۔۔"
وانیا کے گھبرانے پر راگا نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا جو گلابی چہرہ لیے شرمائی شرمائی سی اسکے دل میں اتر رہی تھی۔
"سو جاؤ وانیا۔۔۔۔،"
راگا نے سختی سے کہتے ہوئے اسے خود میں بھینچا جبکہ بہت دیر تک وانیہ یونہی اوٹ پٹانگ باتیں کرتی ہوئی نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔اسے سکون سے سوتا دیکھ راگا نے بھی سکھ کا سانس لیتے ہوئے اپنی آنکھیں موند لیں۔
                     ❤️❤️❤️❤️
ہانیہ کی آنکھ کھلی تو پہلے تو اسے کچھ سمجھ کی نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے۔سر بری طرح سے چکرا رہا تھا اور آنکھیں بھی دھندلی ہوئی تھیں۔
تبھی تھوڑی سی ہمت کر کے وہ اٹھی تو اسکی نگاہ سامنے موجود شخص ہر پڑی جو اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر بندھی پٹی کو کھول رہا تھا۔اڈے دیکھ کر ہانیہ کی گھبراہٹ کم ہوئی کیونکہ اس کے لیے ایک ہاتھ والے شخص کو ہرانا بہت زیادہ آسان ہو جاتا۔
"اپنی بہن کو ڈھونڈنے آئی ہے نا تو یہاں۔۔۔ہوں راگا کی قید میں ہے وہ۔۔۔۔جانتی ہے اسے چھونے کی وجہ سے راگا نے میرا ہاتھ کاٹ دیا۔۔۔"
کال نے اپنا پٹی میں بندھا بازو ہانیہ کے سامنے کیا لیکن ہانیہ بس خاموشی سے بیٹھی اپنی کمر کے پیچھے بندھے ہاتھ کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"لیکن وہ نہ ملی تو کیا ہوا تو بھی تو ویسی ہی ہے نا اتنی ہی حسین۔۔۔اتنی ہی نازک۔۔۔۔"
کال نے آگے ہو کر ہانیہ کا گال چھوا۔
"اتنی ہی معصوم۔۔۔"
کال نے وحشت سے کہا اور اب اسکا ہاتھ ہانیہ کی گردن پر آ چکا تھا۔
"نہیں۔۔۔۔میں ویسی نہیں ہوں مسٹر وہ زبردستی سے مانتی ہو اور میں۔۔۔۔میں پیار کی پجارن ہوں۔۔۔۔"
ہانیہ نے ادا سے کہا تو کال حیرت زدہ ہو گیا۔
"ہاتھ کھولو نا تا کہ تمہیں ساتھ تو دے سکوں۔۔۔۔"
ہانیہ نے اسکے چہرے پر پھونک مار کر کہا تو کال نے مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ کھول دیے اور یہی موقع ہانیہ کو چاہیے تھا فورا اس نے اپنا ہاتھ کال کے گردن میں ڈال کر اسکی گردن کو زرو دار جھٹکا دے کر زمین پر گرایا اور اسکی کمر کے پاس سے چاقو نکال کر اسی کی گردن پر رکھ دیا۔
"تم نے مجھے وانیا جیسا نازک سمجھ کر غلطی کر دی مسٹر۔۔۔۔بتاؤ کہاں ہے وہ۔۔۔؟"
ہانیہ نے سختی سے چاقو اسکی گردن پر رکھتے ہوئے کہا لیکن جواب میں کال قہقہ لگا کر ہنسنے لگا۔
"تم تو اس سے بھی زیادہ کمال ہو تمہیں برباد کرنے کا زیادہ مزہ آئے گا۔۔۔۔۔اندر آؤ۔۔۔"
اس سے پہلے کے ہانیہ کو کچھ سمجھ آتا چار آدمی کمرے میں آئے اور ہانیہ کو دبوچ کر کال سے دور کر کے زمین پر لیٹا دیا۔
"ہاہاہاہا۔۔۔فکر مت کر جانے من ان سب کو بھی موقع دوں گا اپنے بعد۔۔۔آج رات تو کبھی نہیں بھول پائے گی۔"
کال کی بات سن کر ہانیہ جھٹپٹانے لگی لیکن ان چاروں نے اپنے مظبوط ہاتھوں سے اسکے پاؤں اور بازو پکڑ کر اسے بے بس کر دیا۔
کال نے آگے بڑھ کر اسکی جیکٹ کھولی اور شرٹ اٹھا کر اسکے پیٹ کر اپنا ہاتھ رکھا۔بہت سے آنسو ہانیہ کی آنکھوں سے بہہ نکلے نفرت ہو رہی تھی اسے اپنی اس کمزوری اور بے بسی سے۔۔۔
یا اللہ پاک ایسا کچھ ہونے سے پہلے مجھے موت آ جائے۔۔۔
ہانیہ نے دعا کی اور کال کو خود پر جھکتا دیکھ اپنی نم آنکھیں وحشت سے بند کر لیں لیکن اگلے ہی پل کال کا وجود اس پر سے غائب ہوا تھا۔
ہانیہ نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو اسکی نظر انس پر پڑی جو دانت غصے سے تنی رگوں کے ساتھ کال کو وحشیوں کی طرح مار رہا تھا۔
کال کے آدمیوں نے ہڑبڑا کو ہانیہ کو چھوڑا اور انس کی جانب بڑھے لیکن ہانیہ نے آگے بڑھ کر وہ چاقو واپس اٹھایا اور ایک آدمی کی کمر میں گاڑ دیا۔
دوسرا آدمی حیرت سے ہانیہ کی جانب مڑا لیکن تب تک ہانیہ اسکی گردن دبوچ کر مروڑ چکی تھی۔
اب کی بار باقی دونوں آدمی بھی ہانیہ کی جانب آئے تو ہانیہ نے ہاتھ کا مکا بنا کر اس آدمی کی ناک پر اتنی زور سے مارا کہ وہ کراہ کر اپنے ٹوٹے ناک پر ہاتھ رکھ کر زمین پر بیٹھ گیا۔
"ررر ۔۔۔۔رک جاؤ ورنہ گولی مار دوں گا۔۔۔"
چوتھے آدمی نے گھبرا کر انس پر بندوق کو کہا جو ابھی بھی کال کو بری طرح سے مار رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتا ہانیہ نے اپنا پاؤں بہت زور سے اسکے بازو پر مارا اور بندوق اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔
ایک پل کا وقت ضائع کیسے بغیر وہ آدمی وہاں سے بھاگ گیا۔ہانیہ نے انس کو دیکھا جو ابھی بھی ہر چیز سے بے خبر بس کال کو مار رہا تھا۔
"انس بس کریں وہ مر جائے گا۔۔۔"
ہانیہ نے آگے ہو کر انس کو روکا تو انس نے جھٹکے سے نیم مردہ ہوئے کال کو فرش پر پھینکا۔پھر انس کی نگاہ اس ہاتھ پر پڑی جس سے اس نے ہانیہ کو چھوا تھا۔
"کیسے چھوا تو نے میری ہانیہ کو جرات کیسے ہوئی تیری۔۔۔"
انس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر جھٹکے سے توڑ دیا تو اس سنسان جگہ پر کال کی چیخ گونج اٹھی جبکہ ہانیہ تو بس انس کے میری ہانیہ کہنے پر حیرت سے بت بن چکی تھی۔
"بول کہاں ہے راگا ورنہ موت مانگے گا تو موت بھی نہیں ملے گی۔۔۔۔بول کہاں ہے وہ۔۔۔؟"
انس نے غصے سے پوچھا تو کال نے اپنی جان بچانے کے لیے فوراً انہیں پتہ بتا دیا ویسے بھی کال یہی چاہتا تھا کہ وہ لڑکی جب اسکی نہیں ہوئی تو راگا کی بھی نہ رہے۔۔۔۔
پتہ سن کر انس نے جھٹکے سے کال کو چھوڑا اور ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں سے لا کر ایک گاڑی میں بیٹھایا۔سارا راستہ انس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا لیکن ہانیہ ابھی بھی اسکا غصہ محسوس کر سکتی تھی۔
ہوٹل واپس آ کر انس ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے میں لایا اور جھٹکے سے اسے چھوڑا۔
"ہاؤ ڈئیر یو ہانیہ پاگل ہو کیا سوچا ہے کیا ہوتا تمہارے ساتھ اگر میں وہاں نہیں آتا تو۔۔۔۔"
انس غصے سے چلایا اور پاس پڑی کرسی کو زمین پر پٹخا تھا۔
"جو ہوتا سو ہوتا آپ کو اس سے کیا زیادہ سے زیادہ مر ہی جاتی نا میں انس آپ کو فرق پڑتا میرے ہونے یا نہ ہونے سے؟"
ہانیہ کے غصے سے کہنے پر انس کا دل کیا کہ ایک تھپڑ لگا کر اس پاگل لڑکی کا دماغ درست کر دے۔
"تمہیں کیا لگتا ہے مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔"
"جی نہیں پڑتا فرق۔۔۔کیونکہ میرا اور آپکا تعلق ہی کیا ہے انس۔۔۔پرواہ ہے آپکو میری؟ بولیں کیوں پڑتا مجھے کچھ ہو جانے سے آپکو فرق۔۔۔۔؟"
ہانیہ نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے غصے سے پوچھا تو انس آگے بڑھا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا۔
"کیونکہ میں تمہارا ہیرو ہوں ہانیہ وجدان خان۔۔۔محبت ہو تم میری آج سے نہیں اسی دن سے جس دن میرا گریبان پکڑ کر تم نے مجھے اپنی ملکیت کہا تھا۔۔۔۔اسی پل سے جب میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تم نے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔۔۔۔میں وہاں سے اس لیے بھاگا تھا ہانیہ وجدان خان کیونکہ تم سے نہیں اپنے دل سے ہار بیٹھا تھا میں۔۔۔۔"
انس نے اپنی انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے گھور کر کہا۔بہت دیر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے تھے۔زندگی میں پہلی بار ہانیہ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔
"صبح ہوتے ہی ہم وہاں جا کر وانیا کو وہاں سے لے آئیں گے اور اس کے بعد تم دونوں کو واپس لے جا کر میں وجدان سر سے تمہارا ہاتھ مانگوں گا ہانیہ خان اور تمہارا جواب ہاں ہی ہونا چاہیے ورنہ قسم سے تمہیں اٹھا کر لے جاؤں گا کیونکہ تم صرف انس راجپوت کی ہو ۔۔۔"
اس نے شہادت کی انگلی سے اسکا گال چھو کر کہا اور ہانیہ کو ہکا بکا سا دیوار کے ساتھ لگا چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔اس کے جانے کے بہت دیر بعد تک ہانیہ حیرت کے زیر اثر وہیں کھڑی رہی تھی۔یہ کس نئی مشکل میں پڑ چکی تھی وہ۔
                   ❤️❤️❤️❤️
 وانیہ کی آنکھ دوپہر کے قریب جا کر کھلی تھی۔پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہیں آیا پھر کل اپنا پانی میں گرنا اور راگا کا اسے پانی میں سے نکالنا یاد آیا۔
اسے گزری رات کا کوئی واقعہ تو یاد نہیں تھا لیکن وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ راگا ساری رات اس کے پاس اس کا خیال رکھتا رہا تھا۔وانیا گھر کے باہر سے آنے والی ہلکی سی آوازوں پر دروازے کے پاس آ گئی۔
"کچھ پلوں کا کھیل رہ گیا ہے بس ویرہ پھر دیکھنا جو فوجی ہماری راہ کا کانٹا بن رہے ہیں نا وہ ہی میری راہ کے کانٹے ہٹائیں گے۔۔۔۔"
راگا کی آواز پر ہانیہ نے باہر جانے کا ارادہ ترک کیا اور وہیں کھڑی ہو گئی۔
"تمہیں کیا لگتا ہے راگا صرف ایک لڑکی کی وجہ سے ایسا ہوگا؟"
ویرہ کے سوال پر راگا ہلکا سا ہنس دیا۔
"وہ صرف ایک لڑکی ہی تو نہیں ہے ویرہ وہ ایک بہت خاص فوجی کی لاڈلی بیٹی ہے۔۔۔۔تم شاید جانتے نہیں وجدان خان کو  آئی ایس آئی ایجنٹ رہ چکا ہے وہ۔۔۔ہمارے جیسے کتنے ہی دہشت گردوں کو انجام تک پہنچایا ہے اس نے۔۔۔۔"
راگا کے منہ سے اپنے باپ کا نام سن کر وانیا ٹھٹکی۔
"اور اب جب اسے یہ پتا چلے گا کہ اس کی جان سے پیاری بیٹی ایک دہشت گرد کو اپنا دل دے بیٹھی ہے تو تم یہ سوچو ماڑا کہ وہ بے بس ہو کر کیا کچھ نہیں کرے گا ہمارے لیے۔۔۔۔"
راگا کی بات پر وانیا کا دھڑکتا دل بند ہوا۔
"ہاہاہا۔۔۔۔تم دیکھنا ویرہ مجھ سے اپنی بیٹی کی آزادی کے لیے ملک کے ساتھ بغاوت تک کر جائے گا وہ۔۔۔۔"
راگا نے ہنس کر کہا ہر اندر کھڑی وانیہ کا دل ہزار ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تھا۔بہت سے آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرے۔
" اسی لئے تم اس سے نرمی اور پیار کا کھیل کھیل رہے تھے؟اسے جو لگا کہ تم نے اسے کال سے بچانے کے لئے یہ نکاح کیا تھا وہ سب۔۔۔۔۔"
"ہاں ویرہ اس فوجی کی اولاد سے وہ محبت بس ایک کھیل تھا تاکہ اس لڑکی کے ذریعے میں وجدان خان کو قابو میں لا سکوں۔۔۔۔"
راگا نے مسکرا کر کہا اور یہ سن وانیا کی بس ہوئی تھی اسی لئے دروازہ کھول کر وہ باہر آئی اور ایک زور دار تھپڑ راگا کے منہ پر مارا۔
راگا کے ساتھ ساتھ ویرہ نے بھی حیرت سے اس چھوٹی سی لڑکی کی اس حرکت کو دیکھا۔
"مجھے لگا تھا کہ تم اتنے برے انسان نہیں جتنے بنتے ہو۔۔۔۔مجھے لگا تھا کہ تمہارے اندر بھی اچھائی ہے لیکن میں غلط تھی تم برے نہیں انتہائی گھٹیا انسان ہو۔۔۔۔۔جس کے نزدیک کسی کے جذبات بس کھلونا ہیں۔۔۔۔"
وانیا زارو قطار روتے ہوئے اسکے سینے پر مکے برسا رہی تھی۔
"لیکن اب میں تمہارا کھلونا نہیں بنوں گی۔۔۔چلی جاؤں گی میں یہاں سے کچھ بھی ہو جائے چلی جاؤں گی۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر وانیہ وہاں سے جانے لگی لیکن اگلے ہی لمحے اس کے بال راگا کی مٹھی میں تھے۔
"تم نے کہا کہ تم یہاں سے چلی جاؤ گی اور ہم تمہیں جانے دیں گے؟ تم تو ضرورت سے زیادہ معصوم ہو جان راگا اچھا ہی ہے تمہیں سب معلوم ہوگیا اب تمہارے بدلے تمہارے باپ سے ایک خودکش دھماکہ کروانے کا زیادہ مزہ آئے گا۔۔۔۔۔"
راگا کی بات پر جہاں ویرہ مسکرایا وہیں وانیہ کی دھڑکنیں تھم گئی تھیں۔کیا اس کے نصیب میں یہی لکھا تھا کہ وہ اپنے باپ کی بدنامی اور موت کا باعث بنے۔۔۔۔۔نہیں اس سے پہلے وہ مرنا پسند کرے گی۔۔۔
"تم اپنے ناپاک ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوگے دیکھنا تم۔۔۔۔۔"
وانیہ نے روتے ہوئے کہا تو راگا کے ہونٹوں پر ایک دلکش سی مسکان آئی۔
"تم بھی دیکھنا جان راگا میں اپنے ہر ارادے میں کامیاب ہو کر تمہیں اپنی باہوں کا پھول بناؤں گا۔۔۔"
راگا نے اس کے کان میں سرگوشی کی لیکن آج اس سرگوشی سے وانیہ کو بہت زیادہ نفرت ہوئی۔۔۔اسے تو اپنے پورے وجود سے نفرت ہو چکی تھی۔اپنے اس دل سے نفرت ہو چکی تھی جس نے اس شخص سے محبت کی۔
"آئی ہیٹ یو۔۔۔۔"
وانیا کے روتے ہوئے بے بسی سے کہنے پر راگا مسکرایا اور اسے کمرے میں قید کر کے وہاں سے چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد بھی وانیا زمین پر بیٹھ کر روتی رہی تھی۔

   0
0 Comments